Is post mein mein apni 25 saal ki mehnat aur tehqeeq ka nichor bayan kar raha hon. Is post mein tehreer raaz ki baton ko agar aap samajh gaye to yaqeen jaanen ke aap ki rohani manazil aasaan ho jayen ge wazaif ke baray mein aam tor par jo ghalat fehmiya hum ne paal rakhi hain un ko aik aik karkay aap par wazay karne ki koshish karen ge taakay aap ko mein aasani ho aur hamein samjhane mein aasani .yaad rahay wazefa aur chilla aik hi amal ke 2 nam hain. Agar aap wazaif karne ka shoq rakhtay hain to wazefa ki barket se aap apni soch se bhi ziada faida haasil kar satke hain lekin zaroori hai ke aap ko wazefa ki haqeeqat maqsadiat aur sahih tareeqa ka ilm ho . Is ke ilawa yeh baat bhi yaad rakhen ke agar aap usool o zawabit ke mutabiq wazefa karte hain to chhootey se chhota wazefa aap ko tamam zindagi aap ki soch se bhi ziyada faida deta rahay ga aur woh aap ki tamam mushkilaat ke hal ke liye kaafi hai. Lehaza wazefa ki haqeeqat aur maqsadiat samajhney ke liye aap is article ki har har line ko samajh kar parheen .
Wazefa Kya Hai Urdu
اس پوسٹ میں میں اپنی 25 سال کی محنت اور تحقیق کا نچوڑ بیان کر رہا ہوں ۔ اس پوسٹ میں تحریر راز کی باتوں کو اگر آپ سمجھ گئے تو یقین جانیں کے آپ کی روحانی منازل آسان ہو جائیں گے ۔
وظائف کے بارے میں عام طور پر جو غلط فہمیاں ہم نے پال رکھی ہیں ان کو ایک ایک کرکے آپ پر واضع کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ آپ کو سمجنے میں آسانی ہو اور ہمیں سمجھانے میں آسانی ۔
یاد رہے وظیفہ اور چلہ ایک ہی عمل کے دونام ہیں ۔ اگر آپ وظائف کرنے کا شوق رکھتے ہیں تو وظیفہ کی برکت سے آپ اپنی سوچ سے بھی ذیادہ فائدہ حاصل کر سکتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ آپ کو وظیفہ کی حقیقت، مقصدیت اور صحیح طریقہ کا علم ہو ۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی یاد رکھیں کے اگر آپ اصول و ضوابط کے مطابق وظیفہ کرتے ہیں تو چھوٹے سے چھوٹا وظیفہ آپ کو تمام زندگی آپ کی سوچ سے بھی زیادہ فائدہ دیتا رہے گا اور وہ آپ کی تمام مشکلات کے حل کے لیے کافی ہے ۔ لہذا وظیفہ کی حقیقت اور مقصدیت سمجھنے کے لئے آپ اس آرٹیکل کی ہر ہر لائن کو سمجھ کر پڑھیں ۔
Wazefa Ki Haqeeqat
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ قرآن کی کسی آیت مبارکہ کو مخصوص تعداد میں مخصوص دنوں تک ورد کرنا وظیفہ ہے ۔ وظیفہ کے دوران جنات ، پریاں ، چڑیلیں آکر وظیفہ کرنے والے کو ڈراتی ہیں اور اگر وظیفہ کرنے والا دائرے یعنی حصار سے باہر آجاے تو اسے نقصان ہو جاتا ہے
بیان کی گئی تمام باتیں محض فرضی ہیں اور یہ بے شعور لوگوں کی پھیلائی گئی داستانیں ہیں ۔ قرآن کی آیت کی محض تکرار کرنا وظیفہ نہیں اور نہ ہی ایسا کرنے سے وظیفہ کی مقصدیت کی سمجھ آتی ہے اصل میں وظیفہ ایک ایسا عمل ہے جس کے زریعے ہم اپنے باطن یعنی دل ، دماغ اور لاشعو کو کسی بات کا یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ہم ظاہری حوالے سے بہت سی باتوں پر یقین رکھتے ہیں ۔ لیکن عام طور پر ایک عام انسان کا باطن مخصوص باتوں پر یقین نہیں کر پاتا ۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ ہم سب اللہ سے ڈرتے ہیں ۔لیکن غور یہ کریں کہ ہم اللہ کے ڈر سے کون سی برائی چھوڑتے ہیں ۔ سود پر پیسے دینے والے سے اگر یہ سوال کیا جاے کہ کیا آپ اللہ سے ڈرتے ہیں تو وہ ایسے ڈرے ہوے لہجے سے آپ کو اللہ سے ڈر کا یقین دلاے گا جیسے وہ حقیقت میں اللہ سے ڈرتا ہو ۔ لیکن خود سوچیں کہ اگر وہ اللہ سے ڈرتا ہے تو کیا وہ سود پر پیسے دے گا ہرگز نہیں ۔کیونکہ قرآن اور حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ نے سود دینے اور سود لینے والوں کے خلاف اعلان جنگ فرمایا ہے ۔ لہذا اگر کوئی فرد کسی برائی میں مبتلاء ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے تو یہ محض اس کی زبان کا اکرارر ہے ۔ اس کا دل ، دماغ اور لاشعور اللہ کے خوف سے باالکل خالی ہوتا ہے ۔
لہذا وظیفہ کرنے اور کروانے کا مقصد اللہ کی توحید ، ڈر اور اللہ کے موجود ہونے کا یقین دل کی گہرائیوں میں اتارنا ہے ۔ یعنی وظیفہ قدیم اولیاء اللہ کی ایک ایسی حکمت عملی تھی جسکے زریعے وہ لوگوں کے دل کی گرائیوں میں اللہ کی محبت اور اس کی ناراضگی کا ڈر پیدا کرتے تھے ۔
اگر کسی فرد کی دل کی گہرائیوں میں اللہ کا خوف موجود ہے تو وہ گناہ اسی مقام پر جاکر کرے گا جہاں اللہ نہیں ۔ مطلب یہ کہ اس کے پاس گناہ کرنے کی سوچ تک نہیں ہوتی ۔
دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی برائی کے پیچھے یہی بات کارفرماں ہے کہ لوگوں کے دل کی گہرائیوں سے اللہ کا خوف موجود نہیں ۔ دلوں میں اللہ کا خوف موجود نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے لاشعور میں کہیں نہ کہیں اللہ کا انکار موجود ہے ۔ واضع سی بات ہے کہ اگر ہم اللہ کے ہر جگہ پر موجود ہونے کا ایمان رکھتے ہیں تو کیا جس جگہ پر کھڑے ہو کر ہم یتیم پر ظلم کرتے ہیں تو کیا وہاں اللہ موجود نہیں ؟ ۔
ہم نے انتر نیٹ پر بہت سی ایسی ویڈیوز کے بارے میں سنا ہوگا جس میں دینی تعلیم سے آشنااور چہرے پر سنت رسول سجانے کے باوجود لوگوں نے ایسی حرکات کی جس کو ہم اس آرٹیکل میں بیان نہیں کر سکتے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دین کی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بعض لوگ ایسی حرکات کیوں کرلیتے ہیں ۔
اصل میں دین کی تعلیم نے ان لوگوں کو اللہ کے ڈر اور توحید کا اکرار کرنے کا شعور تو دیا لیکن یہ شعور ان کے دل ، دماغ اور لاشعور تک نہیں پہنچتا ہے ۔لہذا اسی وجہ سے کچھ لوگ بظاہر لوگوں کو بدی نہ کرنے کی تعلیم دیتے ہیں لیکن اکثر ایسے لوگ خود بھی غلیظ قسم کی حرکات کرنے کی عادات کا شکار ہوتے ہیں ۔
اسی وجہ سے ذمانہ قدیم میں اولیاء اللہ کا ایک گروہ ایسا تھا جو ظاہری تربیعت کے ساتھ باطنی تربعیت کو بھی ضروری کرار دیتا تھا تاکہ توحید کی تعلیم دینے والے والے سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو سکے جو کہ سیکنڈل بنے ۔ آج اس قسم کے سینڈل عام ہیں اور وجہ باطنی تربعیت سے بے رخی ہے ۔ اور زمانہ قدیم میں باطنی تربعیت کے لئے جو طریقہ اختیار کیا جاتا تھا اسی کو وظیفہ کیا جاتا ہے
بات کرنے کا مقصد یہ ہے اگر ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔اور اس بات پر ہمارا دل ، دماغ اور لاشعور مطمعین ہیں تو ہمارے اندر کسی قسم کے گناہ کرنے والا پرزہ موجود نہیں ہونا چاہئے اور یہی سچ ہے ۔ اور اس سچ کو ممکن کرنے کے لئے زمانہ قدیم میں جو لائحہ عمل اختیار کیا گیا اسی کو وظیفہ کہتے ہیں ۔
Wazefa Ka Sahi Tarika
جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ زمانہ قدیم میں وظیفہ کسی خاص لوگوں کو کروایا جاتا تھا اور یہ خاص لوگ فقیر یا علما اکرام تھے ۔لہذا ان افراد کو پہلے وظیفہ میں ورد کی جانے والی سورہ مبارکہ میں موجود احکامات کا شعور دیا جاتا اور اسکے بعد انہیں سحری کے پر سکون ماحول مٰں اس سورہ مبارکہ کو ورد کرنے کا کہا جاتا ۔لہذا وہ فقیر یا عالم دین اس سورہ مبارکہ کے مفہوم اور مقصدیت کو ذہن میں رکھتے ہوے اس سورہ مبارکہ کا مسلسل ورد کرتے ۔
اس کے بعد آہستہ آہستہ وہ سورہ مبارکہ ان کے دل اور لاشعور کی گہرایئوں میں اتر جاتی ہے مطلب یہ کہ اس آیت مبارکہ کی جو بھی مقصدیت ہوتی اس مقصدیت پر اس فقیر کی رسائی ہو جاتی ۔ مثال کے طور اگر سورہ اخلاص کا وظیفہ کیا جاتا تو سب سے پہلے سورہ اخلاص میں چھپے احکامات کو سمجھایا جاتا ، اس کے بعد فقیر سورہ اخلاص کی مقصدیت یعنی توحید باری تعالیٰ کو ذہن میں رکھتے ہوے سورہ اخلاص کا ورد کرتا جب فقیر کا وظیفہ مکمل ہو جاتا تو اس میں یہ خاصیت پیدا ہو جاتی کہ وہ لوگوں کو توحید باری تعالیٰ کا درس بھی دیتا اوروہ تمام زندگی مدد کے لئے اللہ کے سوا کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاتا ۔
یعنی سورہ اخلاص کا اصل درد فقیر کی ظاہری اور باطنی زندگی پر حاوی ہو جاتا ہے اور ایسا کبھی ممکن نہ ہوتا کہ فقیر یا کوئی عالم دین سورہ اخلاص کا وظیفہ کرنے کے بعد توحید کے برعکس کوئی عمل کرتا ۔
یعنی فقیر جس نیکی کا خود درس دیتا وہ نیکی اور ایمان اسکی ذات کا حصہ بھی ہوتا ۔
بات مشکل ضرور ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ اس بات کو سمجھا جاے ۔
وظیفہ کو عام کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ قرآن جو کہہ رہا ہے اس کا صحیح شعور حاصل ہو ۔ بعض فقیر یہ مانتے تھے کہ محض دلیل کے زریعے کسی کے دل میں توحید پیوست نہیں ہو سکتا ۔ لہذا انہوں نے مراقبہ کا ایک طریقہ اخذ کیا اور مراقبہ کا دوسرا نام وظیفہ ہے ۔یاد رہے کہ آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارک بھی غارحرا میں مراقبہ فرمایا کرتے تھے ۔
Wazefa Aur Jinnat ki Hazri
وظیفہ کے حوالے سے ایک اور غلط فہمی بھی اکثر لوگوں نے پال رکھی ہے وہ یہ ہے کہ وظیفہ کے دوران جنات اور چڑیلیں آجاتی ہے جو بعض اوقات وظیفہ کرنے والے کو نقصان دے جاتی ہے اس لئے وظیفہ ہمیشہ کسی عامل کی رہنمائی میں کرنا چاہیے ۔ کیا بیان کی گئی باتیں درست ہیں ؟
سب سے پہلے یہ یاد رکھیں کہ عامل کی کوئی حقیقت نہیں ، حقیقت صرف محمد آل محمد ، صحابہ اکرام ، فقیر اور پیر کی ہے اور یہ سبھی اللہ کی حقیقت کا شعور دیتے ہیں ۔
اس کے علاوہ جنات ، چڑیل ، ڈائن ، موکلات یا اس قسم کی جو بھی مخلوق ہے اس کا وظیفہ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ۔ یہاں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر جنات ، چڑیل اور بھوتوں کا وظیفہ سے کوئی تعلق نہیں تو یہ وظیفہ کے دوران دیکھائی کیوں دیتی ہیں ، بعض لوگ اس بات کی قسم اٹھانے کو تیار ہوتے ہیں کہ کہ ہم نے وظیفہ کے دوران اپنی آنکھوں سے چڑیلوں کو دیکھا ۔
اب ان چڑیلوں کی غلط فہمی کو دور کرنے لے لئے چند مثالیں پیش کرتا ہوں ۔
اگر ہم موٹر وے یا صحرائی علاقے کا سفر کریں تو ہمیں سرخ یا صحرا کی ریت پر پانی کی لہریں چلتی ہوئی دیکھائی دیتی ہیں جبکہ ہم قریب جائیں تو وہاں پانی کا نام و نشان نہیں ہوتا ۔ یہ فریب نظر ہے جو کہ آنکھوں کو حقیقت لگتا ہے جبکہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ۔
ہمارا ذہن گوگل سرچ انجن کی طرح ہے جس میں ہماری پیدائش لے کر آج تک کا ڈیتا موجود ہے اس ڈیتا میں ہم نے جو سنا ، جو دیکھا ، جو محسوس کیا ، غم ، خوشی ، جذبات سب شامل ہے ۔ ہم نے بچپن سے آج تک چڑیلوں اور جنات کی بہت سی کہانیاں سنی ہوں گی ، اسکے علاوہ ٹی وی پر ہارر قسم کے ڈرامے بھی دیکھے ہوں گے ۔ یہ سب ہمارے ذہن میں سٹور ہیں ۔ اگر کوئی فرد ہمارے سامنے کسی حادثے کی بات کرتا ہے تو لفظ حادثہ کو سن کر ہمارا ذہن ہمارے شعور پر ان یادوں کو ڈسپلے کرنا شروع کردے گا جو کہ حادثہ سے متلق ہوتی ہیں لہذا ہمیں حادثے کے حوالے سے پرانی سے پرانی باتیں یاد آنا شروع ہو جاتی ہے اور ہم ان باتوں کو دوسروں سے شئیر بھی کرتے ہیں ۔
اسی طرح جب کوئی فرد وظیفہ کرتا ہے تو عام طور پر فرد کے ذہن میں یہ خیال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کہیں کوئی چڑیل آجاے ۔ اب جیسے ہی لفظ چڑیل فرد کے ذہن میں آتا ہے فرد کے ذہن میں چڑیلوں ، بھوتوں اور جنات سے متعلق جو ڈیتا ہوتا ہے وہ اس کے شعور پر ڈسپلے پونا شروع ہوجاتا ہے اور اس حالت میں جب فرد پر غنودگی طاری ہوتی ہے تو وہی خیالات اسے خواب کی طرح دیکھائی دینے لگتے ہیں اور یہ اصل میں خواب ہی ہے جو کہ انسان جاگتی آنکھوں سے بھی دیکھ سکتا ہے ۔ دیکھائی دینے والے مناظر ہمیشہ غنودگی میں دیکھائی دیتے ہیں جسے ہی انسان ہوش میں آتا ہے سارے منظر غائب ہو جاتے ہیں ۔ منظر غائب اس لئے ہوتے ہیں کیونکہ وہ غنودگی کے دوران دیکھا جانے والا خواب ہے جیسے غنودگی ختم ہوگی وہ منظر بھی ختم ہو جاے گا ۔ مطلب یہ حقیت نہیں ذہن کو ملنے والا ایک دھوکا ہے بالکل اسی طرح جیسے موٹر وے کی سڑک اور صحرا کو اگر دور سے دیکھا جاے تو وہاں پانی معلوم ہوتا ہے جبکہ وہاں پانی نہیں ہوتا ۔ اسی طرح وظیفہ کے دوران بیٹھ کر اور کھلی آنکھوں سے فرد جو خواب دیکھتا ہے وہ اسے حقیقت لگتا ہے جبکہ وہ حقیقت نہیں
اسکی مثال ایسے ہے کہ ایک اورنگ ذیب نامی شخص ایک سید کے پاس آکر کہنے لگا کہ وہ اسے ڈھیایہ کا علم بتا دیں سید نے بتایا کہ ڈھایہ ، منتر ، جنتر اورمندرہ اور شرکیہ اشعار کی نہ تو کوئی حقیقت ہے اور نہ ہی ان سے کسی کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اورنگ ذیب نے سوچا کہ سید اسے اس وجہ سے ڈھایہ نہیں دے رہا کہ کہیں وہ اس ڈھایہ کا استعمال کرکے کسی کو نقصان نہ دے ۔ اورنگ ذیب 2 سال تک سید کی منٹ سمجاجت کرتا رہالیکن ایک دن سید سے اس سے پیچھا چھڑوانے کے لئے اسے غلط ملط لفظ بنا دئے ، وہ لفظ تھے ، گڑیا کے بال ۔
اورنگ ذیب کے ذہن میں یہ سوچ چل رہی تھی کہ وہ ڈھایہ سے چھلاوے کو قید کرے گا اور پھر اس کے ذریعے لاٹری کے نمبر حاصل کرکے امیر ہو جاے اور پھر دوسروں کی بھی مدد کرے گا ۔ اورنگ ذیب نے سید کے مزاق مزاق میں بتاے گئے لفط گڑیا کے بال 3 دن میں ایک لاکھ بار پڑھ لیے ،
اب تیسرے دن وہ سحری کے وقت اورنگ ذیب بھاگ کر سید کے پاس آگیا اور کہنے لگا کہ مجھے بچا لیں ۔ مجھے ایک بہت بڑی گریا نظر آرہی ہے جو مجھے اپنے بالوں سے باندھنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اورنگ ذیب خوف کے مارے بے ہوش ہوگیا ۔ جب اورنگ زیب کو ہوش آیا تو اس نے سید سے کہا کہ اپنی چڑیل واپس لے لیں مجھے کوئی ڈھایہ نہیں چاہیے ۔ چڑیل کا نام سن کر سید صاحب خود گبھرا گئے لہذا انہوں نے بزرگ شاہد بھائی سے رابطہ کیا تو شاہد بھائی نے ان کے ذہن کا فطور دور کیا ۔
خیر نہ تو وہ گڑیا کا بھوت تھا اور نہ ہی سید نے اسے کوئی حقیقت میں ڈھایہ بتایا تھا اور نہ ہی ڈھایہ کی کوئی حقیقت ہوتی ہے ۔ یہ سب محض ذہنی اور نفسیاتی عوامل ہیں جو کم سونے والے کسی بھی شخص کے ساتھ رونما ہو سکتے ہیں ۔
Wazefa Aur Rohani ijazat
قدیم زمانے میں وظیفہ کے بارے میں ایک اور غلط فہمی بھی لوگوں نے پال رکھی تھی کہ وظیفہ صرف اجازت لے کر ہی شروع کرنا چاہئے ۔ اس کے علاوہ وظیفہ کرنے سے پہلے اپنے گرد برا سا دائرہ لگانا چاہیے تاکہ جنات ، چڑیلیں اور بھوت اس دائرے میں داخل نہ ہو سکیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟
قدیم زمانہ میں ہر وظیفہ کو اجازت حاصل کرنے کے بعد کیا جاتا تھا ۔ اجازت کی حکمت عملی کے پیچھے صرف یہ بات تھی کہ وظیفہ کرنے والا وظیفہ کے دوران ہونے والے ذہنی التباسات اور فریب کو سمجھ سکے اور یہ وظیفہ میں پڑھی جانے والی سورہ مبارکہ کا بھی صحیح شعور حاصل کرے یہ ساری باتیں ماہر استاد اپنے شاگرد کو بتاتا اور سمجھاتا تھا ، جن لوگوں کو ذہنی فریب کے بارے میں علم نہیں ہوتا وہ اکثر وظائف کرنے کے دوران گبھرا کر خود کو نقصان دے لیتے ہیں اور پھر نام چڑیلوں کا لگ جاتا ہے جو کہ سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہوتی ۔
قدیم زمانے میں وظیفہ یا چلہ کرنے سے پہلے لوگ اپنے گرد چھری سے دائرہ لگاتے تھے اس دائرے کا حصار کہا جاتا تھا خیال کیا جاتا تھا کہ اس حصار کی وجہ سے چلہ کرنے والا محفوظ رہتا ہے لیکن اگر کوئی چلہ یا وظیفہ کے دوران اس دائرے سے باہر نکل جاتا اسے نقصان ہو جاتا ۔ یہ محض خود کو حوصلہ دینے کے لئے ہے ۔ سب سے پہلے چلہ یا وظیفہ میں کوئی بھی بھاینک چیز حاضر ہوتی ہی نہیں اور جو کچھ دیکھائی دیتا ہے وہ محض نیند کی وجہ سے دیکھائی دینے والا منظر ہوتا ہے جو کسی کو نیند کی حالت میں نظر آسکتا ہے ۔ لہذا دائرہ لگانے والے ایسےڈرپوک ہوے لوگ ہوتے ہیں جو کہ اپنے آپ سے ڈر جاتے ہیں ۔ خود سوچیں کہ کیا اللہ کی کلام سے شیاطین دور ہوتے ہیں یا قریب آتے ہیں ۔ آپ کا ایمان آپ کو جواب دینے کے لئے کافی ہے ۔
Wazefa Aur Fareb e Nazar
ذہنی فریب بہت سے انداز سے ظاہر ہو سکتا ہے ۔ اور یہ وظیفہ کا اہم حصہ ہوتا ہے ۔ ذہنی فریب محض خوابوں تک بھی محدود نہیں رہتا بلکہ بعض اوقات فرد کو کھلی آنکھوں بہت سے ایسے مناظر دیکھائی دینے لگتے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس کے علاوہ ذہنی فریب بعض افراد کو بغیر کسی وظیفہ کے بھی ہو جاتا ہے ۔
ذہنی فریب میں مقدس زیارات کا دیکھائی دینا ، عظیم بزرگوں کا دیکھائی دینا اور بعض اوقات بعض افراد کو اللہ بھی دیکھائی دے جاتا ہے ، نعوذباللہ ۔ لہذا اسی وجہ سے قدیم بزرگوں نے ایسی دیکھائی دینے والے مناظر قرآن پر پرکھنے کا حکم دیا اور سمجھایا کہ اگر آپ کو کوئی ایسی چیز دیکھائی دیتی ہے جو کہ قرآن کی کسی آیت کی نفی کرتی ہے تو اسے فوری رد کر دیا جاے ۔ لیکن جہاں شعور سے پیدل افراد گمراہ ہو کر نعوذباللہ نبی یا امام مہدی کا ہونے کا دعوی کرکے خود بھی گمراہ ہو جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
لیکن اس مقام پر جو لوگ اپنے کو سنبھال لیتے ہیں وہی اصل میں کامیاب ہو تے ہیں ۔ لیکن ایسے مقامات اور آزمائش تک کم لوگ پہچتے ہیں ۔
یاد رہے کہ ایسا فریب صرف ان لوگوں کے ساتھ ہوتے ہیں جو بہت بڑے بڑے وظائف کئی کئی سال تک کرتے ہیں ۔ ایسے وظائف کو چلہ کشی کہا جاتا ہے ۔
ہم لوگ جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں رہتے ہوے ہم چلہ کشی نہیں کر سکتے ۔ لہذا ہمیں چھوٹے چھوٹے وظائف ہی کرنے چاہئے کیونکہ جب ہم چھوٹے وظائف کو سمجھ کرتے ہیں تو اسی سے ہماری تمام مشکلات کا حل ہو جاتا ہے اور ہمیں کوئی دوسرا وظیفہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔
Wazefa Aur Mokelat
بعض لوگ یہ سمجتھے ہیں کہ وظیفہ کرنے سے موکلات فرد کے بس میں آجاتے ہیں اور اس کے بعد فرد موکلات کو جو حکم دیتا ہے موکلات ویسا ہی کرتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہونا سچ ہے ؟
اصل میں موکلات کی کوئی حقیقت نہیں ۔ اگر کوئی حقیقت ہوتی تو ہمارے سلسلہ کے بہت سے بزرگ کئی کئی سال سے وظائف کر رہے ہیں اور ان بزرگوں نے کبھی تہجد بھی قضا نہیں کی اور ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ ان بزرگوں کو بعض اوقات گھر فاقہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ اگر موکلات والا کوئی سسٹم ہوتا تو وہ برزگ اپنے موکلات سے کہی کر کم از کم ایک کلو سونا منگوا کر اپنے غربت تو دور کر سکتے تھے ۔ لیکن ایساء نہیں ہے ۔ لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ وظیفہ کرنے سے آپ کو روحانی طاقت نہیں ملتی ۔ وظیفہ کرنے سے فرد کو بے شمار روحانی طاقتیں حاصل ہوتی ہیں جو کہ آپ کے اندر پہلے ہی سے موجود ہیں ۔ آپ صرف وظیفہ کے ذریعے ان طاقتوں پہچان کر سکتے ہیں ۔
Wazefa Aur Rohani Taqat
دنیا میں کثیر تعداد ایسے افرا د کی بھی ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ وظیفہ یا چلہ کے زریعے ان کو روحانی طاقتیں مل جائیں اور پھر ان طاقتوں کے زریعے وہ لوگوں کی مدد کریں سوال یہ ہے کیا یہ ممکن ہے ؟
اصل میں جو لوگ اپنی مدد کرنے کے قابل نہیں ہوتے ان کے ذہن میں ایسے ہی خیالات پیدا ہوتے اور بجھتے رہتے ہیں ۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ روحانی طاقت کسے کہتے ہیں ۔ روحانی طاقت حاصل ہونے یا نہ ہونے کا سوال تو بعد میں بتتا ہے ۔ اصل میں روحانی طاقت ایمان کی مضبوطی ، ہمت ، صبر ، شکر ، استقامت اور قناعت ہے اور یہ سب طاقتیں انسان کے اندر پہلے ہی سے موجود ہیں ۔جب ایک چیز آپ کے پاس پہلے ہی سے موجود ہے اور اسکے باوجود آپ اسی چیز کو تلاش کرنے کے لئے جنگل اور صحرا چھان ماریں تو یہاں ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ فرد میں عقل کی کمی ہے ۔یاد رہے کہ روحانی طاقت کو حاصل کرنے سے ذیادہ ضروری اس کی پہچان کرنا ہے اور اگر آپ کو روحانی طاقت کی پہچان ہوگئی تو آپ کو یقین ہو جاے گا کہ یہ تو ہمشہ سے ی آپ کے پاس تھی ۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ گمان ہو کہ ہم وظیفہ کا انکار کر رہے ہیں ۔ لیکن ایسا نہیں ۔ ہم صرف آپ کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر آپ وظیفہ کے زریعے اپنی کسی ناممکن کام کو ممکن بنانا چاہتے ہیں یا خلق خدا کی مدد اور رہمنائی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو صحیہح راستہ اور عقیدہ اپنانا پڑے گا ۔ ہم مسلک کی بات نہیں کر رہے بلکہ وظیفہ کے حوالے سے آپ کو اپنا یقین درست کرنے کی ضرورت ہے ۔ لہذا اگر آپ درست علم حاصل کرکے درست راستے پر چلتے ہیں تو یقین جانئے کہ آپ کے لئے دنیا میں کچھ بھی ممکن نہیں ۔ آپ کو چھوٹا سا وظیفہ بھی اتنا فائدہ دے گا کہ آپ تمام زندگی حیران رہیں گے ۔ وظیفہ اور روحانیت کے حوالے سے ہم نے 25 سال میں جو سیکھا وہ ہم نے مختصر آپ کو بتا دیا ، صرف چند باتیں ہم نے آپ سے شئیر نہیں کی ۔ وہ بھی انشاء اللہ جلد آپ سے شئیر کر دی جائیں گی ۔